بی بی سی
سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی ضمانت میں توسیع سے متعلق نظرثانی کی درخواست مسترد کردی ہے۔ عدالت نے ان کی بیرون ملک جا کر علاج کروانے سے متعلق دائر کی جانے والی درخواست کو بھی مسترد کر دیا ہے۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ’اس عرصے کے دوران سابق وزیر اعظم کا علاج تو نہیں کروایا گیا البتہ اس عرصے کے دوران مجرم کے صرف ٹیسٹ، ٹیسٹ اور ٹیسٹ ہی کروائے گئے۔‘
نواز شریف کو سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی 6 ہفتوں کی ضمانت 7 مئی کو ختم ہو رہی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ عدالت عظمی کے حالیہ فیصلوں کو سامنے رکھتے ہوئے نواز شریف کو ضمانت پر رہائی نہیں دی جا سکتی۔ ان مقدمات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل انعام میمن اور میاں نذیر اختر کے مقدمات قابل ذکر ہیں۔ سپریم کورٹ نے ایک مقدمے کے فیصلے میں لکھا ہے کہ اگر کسی مجرم کو جیل میں یا ہستپال میں طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہوں تو ایسے شحص کو ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ صوبہ پنجاب کے محکمۂ داخلہ کے ذمہ داران اور دیگر متعلقہ حکام نے عدالت کو بتایا ہے کہ میاں نواز شریف کو ہسپتال میں تمام ممکنہ طبی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مجرم نواز شریف کے لیے ایسے غیر معمولی حالات نہیں کہ اُنھیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔
خیال رہے کہ العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں احتساب عدالت کی طرف سے نواز شریف کو ملنے والی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت نو اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونی ہے۔
نامہ نگار کے مطابق مسلم لیگ ن کی جانب سے ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد اس سلسلے میں قانونی راستہ اپنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
فیصلے کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا انھیں عدالتی فیصلے سے مایوسی ہوئی ہے لیکن ان کی جماعت نے ہمیشہ عدالتی فیصلوں کا احترام کیا ہے اور وہ اس فیصلے کا بھی احترام کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اُمید تھی کہ عدالتِ عالیہ نواز شریف کی درخواست ضمانت منظور کر لے گی لیکن ایسا نہیں ہوا، لہٰذا اب دیگر قانونی راستے اختیار کیے جائیں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواست مسترد ہونے کے بعد اب اس فیصلے کے خلاف ملک کی عدالتِ عظمیٰ میں اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔
فیصلے کے موقع پر مریم نواز نے ٹوئٹر پر پیغام میں ایک شعر کے ذریعے اپنے جذبات کو بیان کیا اور کہا کہ دعا کرتی رہنی چاہیے۔ اس سے قبل اتوار کو ہسپتال میں نواز شریف سے ملاقات کے موقع پر انھوں نے امید ظاہر کی تھی کہ عدالت ان کے والد کی درخواست منظور کر لے گی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن کیانی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے دلائل سننے کے بعد 20 فروری کو اس درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ احتساب عدالت نے 24 دسمبر کو العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو سات سال قید اور تقریباً پونے چار ارب روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
اس کے علاوہ انھیں دس سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
عدالت نے میاں نواز شریف کی درخواست پر انھیں اڈیالہ جیل کی بجائے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا۔
(BBC News)